Saturday, February 24, 2018

ابتدا ! اقرا بسم ربک الذی خلق

0 comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے 

کچھ  بھی بیاں کرنے کے لیے الفاظ کا  ہونا ضروری ہے اور اچھے الفاظ کا انتخاب تحریر کو خوبصورتی بھی  عطا کرتا ہے ۔ آپ سب سے معذرت کے ساتھ میرے پاس دونوں کی صلاحیت نہی اس لیے میری کوشش کو درگزر کرنا آپ لوگوں کا مجھ طالب علم  پر ایک احسان ہوگا ۔


آج میں جنت کی کجنی کے بارے میں لکھوں گا میری جنت کی کنجی میرے والد جو میرے لیے تپتی دھوپ میں درخت کی
ٹھنڈی چاؤں کی طرح ہیں اللہ ان کا شفیق سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے آمین

بچپن سے ہی مجھے اپنے والد سے بہت ڈر لگتا ہے پتا نہی کیوں لیکن مجھے ہمیشہ سے ان کے چہرے پر غصے کی جھلک دکھائی دی شاید اسی وجہ سے میں والدہ کے زیادہ قریب ہوگیا کیونکہ مجھے ہمیشہ والد کی ڈانٹ سے اپنی والدہ کی پناہ میسر آئی ۔
میں نے کبھی ان کی باتوں پر دھیان نہی دیا شاید یہ اس ڈر کی وجہ سے تھا یا جو بھی لیکن میں کبھی اپنے والد کو سمجھ ہی نہی سکا میں یہ کبھی سمجھ نہی پایا کہ جب سکول کا سارا کام کرنے کے بعد کھیل کود کرنے باہر دوستوں میں جاتا تو واپسی پر ہمیشہ ڈانٹ اور مار کیوں پڑتی ہے کیونکہ سکول میں بھی ہمیشہ اچھے نمبر ہی حاصل کیے ۔ 

چھوٹی سےچھوٹی بات پر ان کی مار سمجھ سے باہر تھی یا شاید میرے لیے وہ چھوٹی بات تھی لیکن ان کے بے حد سخت رویے کے باوجود انہوں نے کبھی ہمیں کسی بھی چیز کے لیے ترسایہ نہی ہمارے کھانے پینے ،کپڑوں ،کھلونوں اور دوسری فرمائشوں کو مانا بھی اور شاید پیار بھی بہت کیا لیکن مجھے وہ پیار کبھی نظر نا آسکا 

میرے والد نماز روزے کے پاپند ہیں اور میں نے کبھی ان کو کبھی شدید بخار کے باوجود بھی بنا روزہ کے نہی دیکھا وہ رمضان کے روزے ہمیشہ ہی رکھتے تھے اور اب بھی جب ان میں شاید اتنی سکت ہی نہی لیکن اللہ نے ان کو یہ حوصلہ عطا کر رکھا ہے کہ وہ رمضان میں صبر و شکر کرتے رہیں 

مجھے اپنے والد کی محبت کا احساس اس دن ہوا جب میں خود ایک بیٹے کا باپ بنا مجھے اپنی جنت کی کنجی کا اس دس احساس ہوا اور احساسِ ندامت بھی کہ آج تک میں نے اپنے والد کی کوئی بھی بات صرف ڈر کے ہی مانی ان کی محبت میں نہی لیکن ایک بیٹے کا باپ بننے کے بعد مجھے اپنے والد کے چہرے کو دیکھ کر جو سکون ملتا ہے وہ بیان سے باہر ہے 

شاید کچھ باتیں اپنے وقت پر ہی سمجھ آتی ہیں مجھے آج ان کا ہر بات پر غصہ کرنا ان کی مار ان کی ڈانٹ سب کچھ ان کا پیار لگتا ہے اور میں ان کے غصہ کرنے کو ترستا رہتا ہوں لیکن شاید کہ وقت گزر گیا وہ اب مجھے مار تو کجا مجھے وہ ڈانتے تک نہی اور مجھے اپنا بچپن میں کبھی ان کے آگے بولنا شدت سے تڑپا دیتا ہے کاش میں انہیں سمجھ سکتا ،آج وہ بیمار ہوں یا پریشان وہ اپنی بیماری اور پریشانی کو مجھ سے چھپاتے ہیں مبادا کہ وہ مجھ پر بوجھ نا بن جائیں اور آج میں کہتا ہوں کہ وہ کوئی فرمائش کریں میں اپنی دس ضرورتوں کو چھوڑ کر ان کی فرمائش پوری کروں لیکن وہ اب ایسا کچھ نہی کرتے ۔

میری دعا ہے کہ اللہ  رب العزت مجھے میرے والد کو خوش رکھنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے اور ان کا سایہ مجھ پر ہمیشہ قائم رکھے